:مندرجہ ذیل گرافکس کو ڈبل کلک کریں: کنٹرول پلس دبانے سے بھی ڈسپلے کا سائز بڑا کیا جاسکتا ہے
Double click on the images to enlarge: Also use Ctrl+ keys to increase the display size
نوٹ: اردو یونی کوڈ میں اردو اور انگریزی ساتھ ساتھ لکھنے میں فارمیٹنگ بگڑ جاتی ہے، اور سطر کی ترتیب الجھ جاتی ہے۔ مندرجہ ذیل خلاصہ ہم گرافکس کی شکل میں بھی اوپر فراہم کردیا گیا ہے۔
ذیابیطس کے ساتھ ساتھ -- خلاصہ
ذیابیطس شکری یعنی Diabetes Mellitus مخفف DM دور حاضر کا ایک عام مرض ضرور ہے لیکن اس کے وقوع ہونے کا ثبوت صدیوں پہلے مصر، یونان، روم اور ہندوستان میں ملتا ہے۔ مرض ذیابیطس اکیس ویں صدی میں صحت عامہ کے لیے ایک چیلنج بن کر ابھر رہا ہے۔ بعض ماہرین ذیابیطس کو ایک وبا (Epidemic) قرار دیتے ہیں۔
بلا مبالغہ کروڑہا افراد ذیابیطس سے متاثر ہیں۔ ذیابیطس ساری دنیا اور ہر نسل میں پایا جاتا ہے۔ انٹر نیشنل ڈیابیٹس فیڈریشن (مخفف آئی ڈی ایف) کے مطابق ۲۰۰۵ء میں دنیا میں لگ بھگ ۲۰کروڑ لوگ ذیابیطس سے متاثر تھے۔ اندازہ لگایا گیا ہے کہ ۲۰۲۵ء میں دنیا میں ۳۳کروڑ لوگ ذیابیطس سے متاثر ہوںگے۔
ہر مقام پر ذیابیطس وقوع ہونے کی شرح اور رفتار میں اضافہ دیکھاجارہا ہے۔ شہری طرز زندگی، صنعتی اور معاشی ترقی، دولت کی فروانی، غذا میں بے قاعدگی، زیادہ خوراک اور موٹاپے کا راست تعلق ذیابیطس سے ہے۔ عمر کے ساتھ ذیابیطس کی شرح وقوع میں اضافہ ہوتا ہے۔
ذیابیطس سے متاثر ہونے کی شرح اور رفتار مختلف مقامات اور مختلف لوگوں میں الگ الگ ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ ذیابیطسی لوگ ہندوستان میں رہتے ہیں۔ اعدادو شمار کے مطابق سن ۲۰۰۳ءمیں ساڑھے تین کروڑ لوگ اس مرض سے متاثر تھے۔ ماہرین نے اندازہ لگایا ہے کہ ہمارے ملک میں آئندہ بیس پچیس برسوں کے دوران ذیابیطسی مریضوں کی تعداد میں دوگنا سے زیادہ اضافہ ہوگا۔ تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ ہندوستانیوں میں ذیابیطس سے متاثر ہونے کی موروثی اثرپذیری (genetic
susceptibility) دوسری قوموں کے مقابلے میں زیادہ ہے۔
ہندوستان کے چھ بڑے شہروں میں کیے گئے سروے سے پتہ چلا ہے کہ ۲۱فیصد بالغ شہری مرض ذیابیطس سے متاثر ہیں۔ شہر حیدرآباد سب سے آگے ہے جہاں ۶ئ۶۱ فیصد بالغ لوگ ذیابیطسی ہیں۔ دوسرے نمبر پر چینائی (۵ئ۳۱فیصد) اور تیسرے نمبر پر بنگلور شہر ہے جہاں ۲ئ۲۱فیصد بالغ آبادی ذیابیطس سے متاثر ہے۔
ذیابیطس کیا ہے؟ انسانی جسم ایک مشین کی طرح ہے۔ اس مشین کو کام کرنے کے لیے ایندھن چاہیے۔ ہمارے جسم کا ایندھن گلوکوز ہے جسے ہم غذا سے حاصل کرتے ہیں۔ جسمانی خلیے گلوکوز جلاکر توانائی پیدا کرتے ہیں۔ جسم کے مختلف خلیوں کو گلوکوز کی فراہمی کے لیے ہر وقت خون میں گلوکوز موجود رہتی ہے۔ خون میں موجود گلوکوز کو خون گلوکوز (blood glucose) کہتے ہیں۔ چونکہ گلوکوز ایک قسم کی شکر (sugar) ہے، اسی لیے خون شکر (blood sugar) خون گلوکوز کے ہم معنی میں استعمال کیاجاتا ہے۔
مختلف اوقات اور حالات میں خون گلوکوزکی عادی مقدار ایک حد کے اندر بڑھتی اور کم ہوتی رہتی ہے۔ جب خلیے گلوکوز حاصل کرلیتے ہیں تو خون گلوکوز میں کمی ہوتی ہے جو غذا یا دوسرے اقدامات سے ملنے والی گلوکوز سے پوری کردی جاتی ہے۔
غذا حاصل کرنے بعد خون میں گلوکوز کی مقدار بڑھنے لگتی ہے۔ خون گلوکوز میں اضافہ ہونے پر لبلبہ غدود (pancreas) حرکت میں آتا ہے اور انسولین ہارمون (insulin hormone) خارج کرتا ہے۔ انسولین ہارمون کو لبلبہ کے جزیراتِ لینگرہنس میں پائے جانے والے بی ٹا خلیے (beta cells) تیار کرتے ہیں۔ انسولین ایک پولی پیپٹائڈ (polypeptide) ہارمون ہے جو اکاون امینوترشوں (amino acids)سے بنا ہے۔ انسولین خلوی دیواروں پر موجود انسولین آخذوں (insulin receptors) پر چسپاں ہوتا ہے جس کے زیراثر خلیے خون سے گلوکوز قبول کرنے لگتے ہیں۔ خون سے گلوکوز خلیوں کے اندر داخل ہوتی ہے اور خون میں بڑھی ہوئی گلوکوز نارمل حد میں آتی ہے۔
مختلف وجوہات کے سبب لبلبہ انسولین نہیں بناپاتا یا انسولین کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے جس کے نتیجے میں خون گلوکوز قابو میں نہیں رہتی، خون گلوکوز میں اضافہ ہوتا ہے۔ خون گلوکوز کا مستقل بڑھا ہوا رہنا مرض ذیابیطس شکری ہے۔ خون گلوکوز کی اعتدال سے تجاوز ہونے پر مختلف شکایات اور بے قاعدگیاں لاحق ہوتی ہیں جس سے جسم کے اہم اعضا جیسے دل، دماغ، گردے اور آنکھیں متاثر ہوتی ہیں۔
ذیابیطس کی اقسام: ذیابیطس ایک مرض نہیں ہے بلکہ چند امراض کا مجموعہ ہے۔ ذیابیطس میں شامل امراض کی متفقہ خرابی بیش خون گلوکوز یعنی خون میں زیادہ گلوکوز ہے۔ عالمی ادارہ¿ صحت کی مجلسِ ماہرین نے ذیابیطس کو مختلف اقسام میں تقسیم کیا ہے، تین اہم اقسام درج ذیل ہیں۔
قسم اول ذیابیطس شکری (Type 1 Diabetes Mellitus مخفف T1DM): اس قسم کی ذیابیطس میں انسولین نہ ہونے کے سبب خون گلوکوز میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس کی وجہ لبلبہ کے بی ٹا خلیوں کی تباہی ہے۔ یہ مرض عام طور پر بچوں اور عنفوان شباب میں ہوتا ہے۔ علاج کے لیے انسولین پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔قسم اول ذیابیطس بڑوں میں بھی ہوسکتا ہے۔ قسم اول ذیابیطس بہت کم وقوع ہوتا ہے۔ جملہ مریضوں کا صرف ایک تا دس فیصد (مختلف مقامات پر) قسم اول ذیابیطسی مریضوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ قسم اول ذیابیطس اچانک اور تیزی سے شروع ہوتا ہے اور مریض کو خون گلوکوز بڑھنے سے شکایات ہوتی ہیں۔
قسم دوم ذیابیطس شکری (Type 2 Diabetes Mellitus مخفف T2DM): بہت عام قسم ہے جو انسولین کی کمی یا انسولین کے استعمال میں خرابی کے سبب ہوتا ہے۔ ذیابیطس کے جملہ مریضوں کا ۵۸ سے ۵۹فیصد حصّہ قسم دوم ذیابیطس سے متاثر ہے۔ یہ مرض عموماً تیس برس کے بعد آہستہ آہستہ شروع ہوتا ہے لیکن دورِ حاضر میں موٹے بچوں میں اس قسم کی ذیابیطس دیکھی جارہی ہے۔ اکثر مریضوں کا وزن بڑھا ہوا ہوتا ہے۔ قسم دوم ذیابیطسی مریضوں کا علاج غذا، ورزش اور دواو¿ں سے ممکن ہے۔ بعض مرتبہ انسولین کی بھی ضرورت پڑتی ہے۔
حملی ذیابیطس (Gestational Diabetes Mellitusمخفف GDM): حمل کے دوران خون گلوکوز میں اضافے کے سبب ہونے والا ذیابیطس ہے جو عموماًبچے کی پیدائش کے بعد ختم ہوجاتا ہے۔ ایک سے دو فیصد حاملہ خواتین اس قسم کی ذیابیطس سے متاثر ہوتی ہیں۔ حملی ذیابیطس کا علاج انسولین سے کیاجاتا ہے۔ خون گلوکوز کم کرنے والی دواو¿ں کا استعمال ممنوع ہے۔
ذیابیطس کی وجوہات: مرض ذیابیطس کا اصل سبب انسولین ہارمون کی کمی یا انسولین کی کارکردگی متاثر ہونا ہے۔ انسولین کو متاثر کرنے والے عوامل کے بارے میں یقینی اور مکمل تفصیلات تادم تحریر حاصل نہیں ہیں۔ موجودہ جانکاری کے مطابق مرض ذیابیطس کا کوئی ایک سبب نہیں ہے بلکہ کئی اسباب ہیں۔ اس بنا پر ذیابیطس کو کثیر یا ہمہ عوامل مرض یعنی Multifactorial Disease کہاجاتا ہے۔ انسولین کو متاثر کرنے والے عوامل کو موروثی (Hereditary) اور ماحولی (Environmental) عوامل میں تقسیم کیاجاتا ہے۔
ذیابیطس موروثی مرض نہیں ہے لیکن ذیابیطس سے متاثر ہونے کی اثرپذیری (Susceptibility to Diabetes) موروثی ہوتی ہے۔ ایک نسل سے دوسری نسل میں ذیابیطسی اثرپذیری منتقل ہوتی ہے۔ ماحولی یا ماحولیاتی عوامل کئی ہیں۔ قسم اول ذیابیطس میں وائرسی چھوت (Viral Infection) اہم رول اداکرتے ہیں۔ قسم دوم ذیابیطس شہری اور غیر متحرک زندگی کے سبب بہت عام ہے۔ عمر اور موٹاپے میں اضافہ بھی اہم ماحولی عوامل ہیں۔ غذائی عوامل جیسے زیادہ حراروں کا حصول، شکر اور چکنائی کا زیادہ استعمال اور ریشے کی کمی کو بھی ذیابیطس کا باعث بتایا جاتا ہے۔
آسانی سے سمجھنے کی خاطر کہاجاسکتا ہے کہ ذیابیطسی اثرپذیری رکھنے والوں میں موحولیاتی عوامل کے اثرانداز ہونے سے مرض ذیابیطس وقوع ہوتا ہے۔
ذیابیطس کسی بھی عمر میں ہوسکتا ہے لیکن مریضوں کی اکثریت ادھیڑ عمر والوں کی ہوتی ہے۔ ذیابیطس مردوں اور عورتوں کو تقریباً یکساں متاثر کرتا ہے۔
شکایات اور علامات: مرض ذیابیطس میں شکایات اور علامات عدم انسولین کیفیت کے سبب ہوتی ہیں۔ جب انسولین کی کمی یا غیر
کارکردگی کی وجہ سے خلیے گلوکوز کو توانائی پیدا کرنے کے لیے استعمال نہیں کرپاتے تو خون میں گلوکوز جمع ہوتی ہے۔ خون میں ایک حد سے بڑھنے پر گلوکوز گردوں کے ذریعہ پیشاب میں خارج ہونے لگتی ہے۔ گلوکوز کے اخراج کے لیے پانی کی ضرورت پڑتی ہے۔ لہذا جسم سے پانی کا گلوکوز کے ساتھ اخراج عمل میں آتا ہے۔ مریضوں کو زیادہ اور بار بار پیشاب (Polyuria) آتا ہے۔ جسم سے پانی کے غیر معمولی اخراج کی پابجائی کے لیے پیاس بڑھتی (Polydipsia) ہے اور مریض خوب پانی پینے لگتا ہے۔
خلیوں کو انسولین کی غیرموجودگی یا غیر کارکردگی کے سبب گلوکوز نہ ملنے سے مریضوں کو بھوک کا احساس ہوتا ہے اور وہ زیادہ کھانے (Polyphagia) لگتے ہیں۔ جب توانائی کے لیے گلوکوز نہیں ملتی تو خلیے پروٹین اور چربی کو توانائی پیدا کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ جسمانی وزن میں کمی اور کمزوری لاحق ہوتی ہے۔ خون گلوکوز میں اضافہ جاری رہتا ہے اور جب شدید اضافہ ہوتا ہے تو مریض بے چین اور چڑچڑا ہوجاتا ہے۔ پسینہ آتا ہے۔ اختلاج، متلی ، پیٹ میں درد کی شکایات ہوتی ہیں۔ الٹیاں ہوتی ہیں اور آخر میں بے ہوشی طاری (Diabetic Coma) ہوتی ہے۔اگر ذیابیطسی بے ہوشی کی بروقت تشخیص اور اس کے علاج میں تیزی نہ کی گئی تو جان کے لالے پرجاتے ہیں۔
ذیابیطس کی شکایات اور علامات ظاہر ہونے اور ان کی شدت کا انحصار اس بات پر ہے کہ انسولین کا اخراج اور اس کی کارکردگی کس حد تک اور کس رفتار سے متاثر ہوئی ہے۔ قسم اول ذیابیطس میں انسولین کی کمی بہت جلد اور تیزی سے ہوتی ہے جس کے سبب شکایات شدید اور تیزی سے پیدا ہوتے بھی ہیں۔ اس تیزی اور شدت کے برخلاف قسم دوم ذیابیطس میں انسولین کی کارکردگی آہستہ آہستہ متاثر ہوتی ہے۔ شکایات شدید نوعیت کی نہیں ہوتیں بلکہ کئی قسم دوم ذیابیطسی مریضوں کو کوئی شکایت ہی نہیں ہوتی۔ چند مریض ذیابیطس کے ساتھ خاصا وقت گزارلیتے اور پیچیدگیوں کے ساتھ ڈاکٹر سے رجوع ہوتے ہیں۔
ذیابیطس کی تشخیص: مرض ذیابیطس کی تشخیص کے لیے خون کا معائنہ کیاجاتا ہے۔ پیشاب میں گلوکوز کی موجودگی مرض ذیابیطس کی نشاندہی کرتی ہے لیکن ضروری نہیں کہ پیشاب میں شکر یا گلوکوز کی موجودگی ذیابیطس کی وجہ سے ہی ہو۔ اطمینان بخش اور حتمی تشخیص کے لیے خون میں گلوکوز کی مقدار کا اندازہ ضروری ہے۔
جب شکایات اور علامات ہوں تو خون گلوکوز کا ذیابیطسی حد ۲۰۰ملی گرام فی سو ملی لیٹر یا ۱ئ۱۱ملی مول فی لیٹر) سے زیادہ رہنا مرض ذیابیطس کی تشخیص ہے۔ اگر شکایات نہیں ہیں تو دس سے چودہ گھنٹوں کے فاقے کے بعد خون گلوکوز کا معائنہ کیاجاتا ہے۔ اگر دو مرتبہ Fasting فاقہ خون گلوکوز ذیابیطسی حد (۶۲۱ملی گرام فی سو ملی لیٹر یا ۷ملی مول فی لیٹر) سے زیادہ ہے تو مرض ذیابیطس کی تشخیص کی جاتی ہے۔ بعض مرتبہ فاقہ خون گلوکوز طبعی حد (۱۱۰ملی گرام فی سو ملی لیٹر یا ۱ئ۶ملی مول فی لیٹر) سے زیادہ لیکن ذیابیطسی حد (۶۲۱ملی گرام فی سو ملی لیٹر یا ۷ملی مول فی لیٹر) سے کم رہتی ہے تو ایسے لوگوں میں ذیابیطس کی تشخیص کے لیے Oral Glucose Tolerance Testیعنی گلوکوز تحمل امتحان کا مشورہ دیا جاتا ہے۔
ذیابیطس کا علاج: پچھلی نصف صدی کے دوران ذیابیطس کے متعلق معلومات میں قابل قدر اضافہ اور ذیابیطس کے علاج میں قابل ستائش ترقی ہوئی ہے جس سے ذیابیطس کا علاج آسان ہوا اور خون گلوکوز پر خاطر خواہ کنٹرول کیاجاسکتا ہے۔ امریکن ڈیابیٹس اسوسی ایشن کا مشورہ ہے کہ ذیابیطسی مریضوں کی نگہداشت ماہرین کی ایک ٹیم کے ذریعہ کی جانی چاہیے جس میں طبیب(Physician)، ماہر تغذیہ(Dietitian)، ذیابیطسی معلم (Diabetes Educator)، معالج پا(Podiatrist) اور دوسرے شامل ہیں۔
ذیابیطس کا علاج ان معنوں میں نہیں ہے کہ مریض نے چند دن دوائیں استعمال کی اور اسے ذیابیطس سے چھٹکارا مل گیا جیسا کہ موسمی بخار، کھانسی میں ہوتا ہے۔ ذیابیطس کے علاج کا مقصد بڑھی ہوئی خون گلوکوز کم کرکے نارمل حد میں رکھنا ہے۔ اس لحاظ سے ذیابیطس کا بہتر سے بہتر علاج موجود ہے۔ مختلف طریقوں، دوائوں اور خارجی انسولین کی مدد سے خون گلوکوز کو کامیابی کے ساتھ طبعی حد میں رکھا جاسکتا ہے اور مریض نارمل زندگی گزارسکتا ہے۔ اسی لیے ذیابیطس کے علاج کے تعلق سے خون گلوکوز پر قابو پانے یا کنٹرول کی بات ہوتی ہے۔
خون گلوکوز کو قابو میں لانے اور اسے طبعی حد میں رکھنے کے لیے مختلف طریقے استعمال کیے جاتے ہیں۔ انھیں چارزمروں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:
۱۔غذا میں احتیاط اور طبعی وزن کی برقراری
۳۔ حفظان صحت اصولوں پر عمل پیرا ہونا
۲۔ ورزش
۴۔ دوائیں اور انسولین
علاج مرض کی سنگینی پر منحصر ہوتا ہے۔ قسم اول ذیابیطسی مریضوں اور حاملہ خواتین کے لیے انسولین کا استعمال ضروری ہے۔ قسم دوم مریضوں میں غذائی احتیاط اور وزن میں کمی اور ورزش کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ ان کے ناکام ہونے پر دوائیں استعمال کی جاتی ہیں اور انسولین کے انجکشن بھی دیے جاتے ہیں۔
غذائی علاج: ذیابیطس کے علاج کا پہلا قدم غذا میں احتیاط ہے جسے Dietary Treatment یعنی غذائی علاج کہا جاتا ہے۔ غذا کے زیادہ استعمال سے پرہیز ضروری ہے۔ غذا کی پیمائش کیلوری یا حرارہ نامی اکائی سے کی جاتی ہے۔ ذیابیطسی لوگوں کو اپنی غذامیں کیلوری کا خاص خیال رکھنا چاہیے۔ زیادہ حراروں یا کیلوری کا حصول موٹاپا اور ذیابیطس کا سبب ہے۔ غذا میں شکریات (کاربوہائیڈریٹس،Carbohydrates)، لحمیات (Proteins)اور چکنائی(Fats) توانائی فراہم کرتے ہیں۔ایک گرام شکریات اور لحمیات سے چار کیلوری ملتے ہیں جبکہ ایک گرام چکنائی سے دو گنا سے زیادہ نو کیلوری توانائی حاصل ہوتی ہے۔
موٹاپا ذیابیطس کی ایک اہم وجہ ہے۔ موتاپے سے بچنا چاہیے۔ موٹاپے سے ایک طرف انسولین کی ضرورت بڑھتی ہے اور دوسری جانب جسم میں زائد چربی سے انسولین مدافعت (Insulin Resistance) میں اضافہ ہوتا ہے۔ جسمانی وزن کا اندازہ Body Mass Index (اشاریہ جسمانی وزن، مخفف بی ایم آئی) کے ذریعہ لگایا جاتا ہے۔
بی ایم آئی = وزن (کلوگرام میں) ٪ قد کا مربع (میٹر میں)
۵ئ۱۸ سے ۳۲ بی ایم آئی کو مثالی قرار دیاجاتا ہے۔ اس سے زیادہ بی ایم آئی رکھنا مناسب نہیں ہے۔ زیادہ بی ایم آئی صحت کے لیے مسائل کا باعث ہے۔
چربی کی ذخیرہ اندوزی کے انداز کو بھی ذیابیطس کی ایک وجہ گردانا جاتا ہے۔ کمر کے اطراف شحم اندوزی یا توندی موٹاپے کو صحت کے لیے خطرہ ماناجاتا ہے۔ ماہرین مردوں میں ۹۴سنٹی میٹر (۳۷انچ) اور خواتین میں ۸۰سنٹی میٹر (۳۲انچ)تک کمر کے محیط کو صحت مند قرار دیتے ہیں۔
زائد جسمانی وزن اور زائد کمر کا محیط رکھنے والوں کو اپنا وزن کم کرنا چاہیے۔ وزن کم کرنے کے لیے بھی کئی طریقہ ہائے علاج ہیں جنھیں موزوں اور غیرموزوں علاج میں تقسیم کیاجاسکتا ہے۔ موزوں علاج کا اصول ضرورت سے کم غذا کا حصول ہے۔ عام طور پر یومیہ ۵۰۰کیلوری کم غذا حاصل کرنے کا مشورہ دیاجاتا ہے۔ کم غذا حاصل کرنے کے ساتھ زیادہ جسمانی حرکت یا ورزش کرنی چاہیے۔ غذائی عادات واطوار میں تبدیلی بھی ضروری ہے۔ وزن کم کرنے کے لیے دوائیں بھی ملتی ہیں لیکن ان کا مستقل استعمال نہیں کیاجاسکتا ہے۔ شدید موٹاپے کا علاج سرجری سے بھی کیاجاتا ہے۔
ذیابیطسی لوگوں کی غذا عام غذا سے مختلف نہیں ہے۔ انھیں بھی وہی ہدایات دی جاتی ہیں جو عام لوگوں کے لیے وضع کی گئی ہیں۔ غذا متوازن اور متنوع ہونی چاہیے۔ غذا میں توانائی دینے والے مقویات کا تناسب کاربوہائیڈریٹس ۵۰ سے ۴۰ فیصد، لحمیات ۱۲سے ۲۰ فیصد اور چکنائی ۳۰ فیصد سے کم ہونا چاہیے۔ غذا میں چکنائی، شکر اور نمک کا استعمال کم ہونا چاہیے۔ کم چکنائی دودھ اور دودھ سے بنی اشیا اور کم چکنائی گوشت کو فوقیت دی جانی چاہیے۔ ماہرین غذا میں لحمیات کے زیادہ استعمال کو نقصان دہ بتاتے ہیں۔ غذا میں ریشہ دار اشیا سے انسولین کی کارکردگی بہتر ہوتی ہے۔ ریشہ دار غذائی اشیا جیسے ثابت اجناس، پھل اور ترکاری زیادہ کھانا فائدہ مند ہے۔
مختلف غذائی اشیا سے توانائی کی مختلف مقدار حاصل ہوتی ہے اور مختلف مقویات (Nutrients)الگ الگ مقدار میں پائے جاتے ہیں۔ ہمیں درکار توانائی اور مقویات کسی ایک یا دو غذائی اشیا میں یکجا نہیں ملتے۔ اس لیے ہمیں مختلف غذائی اشیا کے استعمال سے اپنی غذائی ضرورت پوری کرنی پڑتی ہے۔ استعمال ہونے والے مختلف غذائی اشیا کے مجموعے کو Diet یعنی غذا کہتے ہیں۔ غذا میں مختلف اشیا کو غذائی ضرورت پوری کرنے کی غرض سے شامل کرنے کے عمل کو غذائی منصوبہ بندی (Diet Planning) کہتے ہیں۔ غذائی منصوبہ بندی یا Diet تیار کرنے کے مختلف طریقے ہیں۔امریکن ڈیابیٹس اسوسی ایشن ذیابیطسی مریضوں کی غذائی منصوبہ بندی کے لیے مبادلہ نظام (Food Exchange System) کی سفارش کرتا ہے۔ غذائی مبادلہ نظام میں اشیا کو توانائی اور مقویات کی موجودگی کی بنیاد پر چھ زمروں میں تقسیم کیاجاتا ہے۔ ہر زمرے کی ایک فہرست مرتب کی جاتی ہے۔ فہرست میں شامل اشیا ایک جیسے ہوتے ہیں۔ ان سے مساوی توانائی حاصل ہوتی ہے اور فہرست میں شامل ایک شے کو دوسری کے بدلے میں استعمال کیاجاسکتا ہے۔ ماہر تغذیہ کی مدد سے اس طریقہ کو سمجھ کر آسانی سے اپنی غذا پلان کی جاسکتی ہے۔
سہولت کی خاطرذیابیطسی مریضوں کو مختلف چارٹس اور ہدایت نامے بھی دیے جاتے ہیں جن پر عمل کیاجاسکتا ہے لیکن مریض یکسانیت سے بے زار ہوجاتا ہے اور ہر وقت چارٹ ساتھ رکھنا بھی ممکن نہیں ہوتا۔ اس لیے بہتر ہے کہ غذائی منصوبہ بندی کے اصولوں کو سمجھ کر اپنی غذا پلان کریں یا اپنی غذا کا انتخاب کریں۔
غذا اس طرح ترتیب دی جانی چاہیے کہ انسولین کی کم مقدار کا زیادہ فائدہ اٹھایا جاسکے۔اس لیے ذیابیطسی مریضوں کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ ایک وقت میں زیادہ نہ کھائیں۔ دن میں ایک مرتبہ کھانے سے بہتر ہے کہ تین چار یا زیادہ مرتبہ کم مقدار میں غذا حاصل کی جائے۔دوسرا مشورہ دیا جاتا ہے کہ ہردن یکساں غذا کھائیں یعنی حاصل کی جانے والی توانائی میں واضح اور بڑا برق نہ ہو۔ ذیابیطسی مریضوں کے لیے وقت پر کھانا بھی ضروری ہے۔ وقت پر کھانے سے دوائوں اور انسولین کی خوراک معین کرنے میں سہولت رہتی ہے۔
ذیابیطس اور شکر: ہمیں شکر سے صرف توانائی حاصل ہوتی ہے۔ شکر میں کوئی غذائیت نہیں ہوتی۔ زیادہ شکر یعنی زیادہ توانائی حاصل کرنے سے موٹاپا لاحق ہوتا ہے جو ذیابیطس کا سبب بن سکتا ہے۔ اس بناپر شکر کا پرہیز بہت مناسب معلوم ہوتاہے۔
میٹھے ذائقے کے لیے دیگر کیمیائی اشیا کا استعمال ہوتا ہے۔ انھیں Artificial Sweeteners یعنی مصنوعی مٹھاس کہاجاتا ہے۔ یوں تو کئی کیمیائی مرکبات میں مٹھاس پیدا کرنے کی صلاحیت پائی جاتی ہے لیکن غذا میں میٹھا ذائقہ بنانے کے لیے صرف چند مرکبات کو استعمال کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ انھیں Acceptable Daily Intake (قابل قبول یومیہ مقدار) کے اندر استعمال کرنا محفوظ ہے۔ ماہرین دوسرا مشورہ یہ دیتے ہیں کہ ایک ہی مصنوعی مٹھاس کو مستقل استعمال نہ کریں، چند دنوں بعد دوسری مصنوعی مٹھاس کا استعمال کریں۔ اس سے جسم میں ایک ہی کیمیائی شے کے جمع ہونے اور نقصان پہنچانے کا امکان کم ہوتا ہے۔
ورزش: جسمانی حرکت (Physical activity) جیسے چلنا پھرنا، کام اور کھیل کود میں توانائی صرف ہوتی ہے اور ہم یہ توانائی خون میں موجود گلوکوز سے حاصل کرتے ہیں۔ یوں جسمانی حرکت اور ورزش سے خون گلوکوز میں کمی ہوتی ہے۔ ورزش دوا جیسا اثر رکھتی ہے۔ اسی لیے مرض ذیابیطس کے کنٹرول میں ورزش کا مشورہ دیاجاتا ہے۔ ورزش سے دوسرے فائدے بھی حاصل ہوتے ہیں۔ ورزش سے جسمانی وزن اور انسولین مدافعت میں کمی ہوتی ہے اور انسولین کی کارکردگی بہتر ہوتی ہے۔ ورزش سے خون کولیسٹرال اور دوسری چکنائی میں کمی دیکھی گئی ہے اور دل کی کارکردگی بھی بہتر ہوتی ہے۔
ماہرین ذیابیطسی مریضوں کے لیے ان کی صحت کے مطابق مناسب ورزش کا مشورہ دیتے ہیں۔ پیدل چلنا بہترین اور آسان ورزش ہے، ہفتہ میں کم سے کم پانچ دن ۳۰ سے ۴۵ منٹ کے لیے پیدل چلنے کا مشورہ دیاجاتا ہے۔
حفظان صحت اصولوں پر عمل پیرا ہونا: ذیابیطس ایک منفرد مرض ہے جس کے علاج میں صرف دوا اور انسولین کے انجکشن کافی نہیں ہیں۔ ذیابیطس کے علاج کاایک اہم پہلو طرز زندگی میں تبدیلی یا بہتری لے آنا بھی ہے۔ بری عادتوں کو چھوڑنا اور حفظان صحت کے اصولوں پر عمل پیرا ہونا بھی ذیابیطس کے علاج کا حصّہ ہے۔ذیابیطس کے مریضوں کو جلد، دانتوں، پیروں اور آنکھوں کی صحت، حفاظت اور نگہداشت کا دوسروں سے زیادہ خیال رکھنا پڑتا ہے۔ بداحتیاطی نقصان پہنچاسکتی ہے۔
’اپنے پیروں کی حفاظت کیجیے‘ذیابیطسی مریضوں کو مشورہ ملتا ہے۔ ناخن کاٹنے میں احتیاط اور پیروں کی صفائی کا خاص اہتمام کرنا پڑتا ہے۔ ننگے پاو¿ں چلنے پھرنے سے پرہیز کرنا چاہیے اور پیروں میں جوتے تنگ اور دبانے والے نہ ہو۔ پیروں کے زخم کا فوری اور مکمل علاج کیا جانا چاہیے۔
خون میں گلوکوز کم کرنے کے لیے دوائیں: بیش خون گلوکوز (Hyperglycemia) میں کمی کے لیے دوائیں استعمال کی جاتی ہیں جنھیں Oral Hypoglycemic Drugs کہاجاتا ہے۔ ہم ان دواو¿ں کو ’کم خون گلوگوز دوائیں‘ کہہ سکتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق آدھے سے زیادہ ذیابیطسی مریض دوائیں استعمال کرتے ہیں۔ انسولین تیار کرنے سے قاصر مریضوں میں کم خون گلوکوز دوائیں کاآمد نہیں ہوتیں۔ قسم دوم ذیابیطسی مریضوں میں خون گلوکوز کم کرنے والی دواو¿ں کا استعمال عام ہے۔ پانچ اقسام کی تیس کے لگ بھگ دوائیں علاج کے لیے دستیاب ہیں۔ دواو¿ں کو ڈاکٹر کے مشورے ہی سے استعمال کرنا چاہیے۔ دواو¿ں کو کھانے سے کچھ دیر پہلے، کھانے کے دوران یا کھانے کے فوری بعد استعمال کرنے کا مشورہ دیاجاتا ہے۔
ذیابیطس کے علاج میں جڑی بوٹیاں: مرضِ ذیابیطس کے علاج میں مریض جڑی بوٹیوں کا استعمال بھی کرتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق پچاس فیصد سے زیادہ مریض کبھی نہ کبھی نباتاتی ادویات استعمال کرتے ہیں اور استعمال ہونے والی جڑی بوٹیوں کی تعداد چارسو سے زیادہ بتائی جاتی ہے۔ محققین نے کئی جڑی بوٹیوں کو خون میں گلوکوز کم کرنے کا اہل پایا ہے لیکن ان کا اثر اتنا نہیں ہے کہ انھیں بطور دوا ذیابیطس کے علاج میں استعمال کرنے کی سفارش کی جاسکے۔ ابھی کئی سوالوں کے جواب بھی ملنا باقی ہیں۔ اس لیے ذیابیطس کے علاج میں کسی جڑی بوٹی کا کامیاب اور باضابطہ استعمال نہیں ہوا ہے۔
علاج کے لیے انسولین: خون گلوکوز میں کمی کے لیے خارجی انسولین استعمال کیا جاتا ہے۔ قسم اول ذیابیطسی مریضوں، حمل کے دوران اور بعض قسم دوم ذیابیطسی مریضوں میں انسولین دیا جاتا ہے۔ انسولین کے استعمال کا مقصد جسم کو باہر سے انسولین کی پابجائی کرنا یا کارآمد انسولین فراہم کرنا ہے۔ انسولین کو جسم میں انجیکٹ یا داخل کرنا پڑتا ہے، انسولین کو گولیوں اور کیپسول کی شکل میں کھایا نہیں جاسکتا۔
بازار میں کئی اقسام کے انسولین ملتے ہیں جو تیاری، مدت اثر اورچند دوسری باتوں میں مختلف ہوتے ہیں۔ علاج کے لیے انسولین کا انتخاب کبھی خود سے نہیں کرنا چاہیے۔ ڈاکٹر بہتر مشورہ دے سکتا ہے، اسی لیے ڈاکٹر کے مشورے ہی سے انسولین استعمال کرنا چاہیے۔
حصول کے لحاظ سے گائو، خنزیری اور انسانی انسولین ملتے ہیں۔ انسانی انسولین سے مراد حیاتیاتی تیکنیک سے تیار کردہ انسولین ہے جو کیمیائی طور پر انسانی لبلبہ میں بننے والے انسولین جیسا ہوتا ہے۔ انسانی انسولین کا استعمال کئی لحاظ سے بہتر اور افضل ہے، اب انسانی انسولین کے استعمال کی سفارش کی جاتی ہے۔
مدت اثر کے لحاظ سے انسولین کی چند قسمیں ہیں۔ انتہائی مختصر مدتی انسولین (Ultra Short Acting Insulins) سریع التاثیر انسولین ہیں جن کا اثر انجکشن دینے کے پانچ دس منٹ میں شروع ہوتا اور تین سے پانچ گھنٹوں تک برقرار رہتا ہے۔ مختصر مدتی انسولین (Short Acting Insulins) قدرتی انسولین جیسے ہوتے ہیں۔ آدھے گھنٹہ بعد اثر شروع ہوتا ہے جو چھ سے آٹھ گھنٹوں تک رہتا ہے۔ وسط مدتی انسولین (Intermediate Acting Insulins) کا اثر چودہ سے اٹھارہ گھنٹوں کے لیے ہوتا ہے۔ طویل مدتی انسولین (Long Acting Insulins) چوبیس گھنٹوں سے زیادہ کے لیے موثر ہوتے ہیں۔ مخلوط انسولین (Mixed Insulins) بھی تیار کیے جاتے ہیں۔ مختصر مدتی انسولین اور وسط یا طویل مدتی انسولین کو ملاکر مخلوط انسولین بنائے جاتے ہیں۔ انسولین کی پیمائش انٹر نیشنل یونٹ فی ملی لیٹر (IU/ml) سے کی جاتی ہے۔ ایک سو یونٹ فی ملی لیٹر کی قوت کے انسولین ملتے ہیں۔ انسولین کو ۲ سے ۸ڈگری سنٹی گریڈ کے درمیان رکھنا چاہیے۔ فریج کے عام حصے میں درجہ حرارت ۴ڈگری سنٹی گریڈ ہوتا ہے جو انسولین رکھنے کے لیے مناسب ہے۔
انسولین کو زیر جلد دیا جاتا ہے۔ انسولین انجیکٹ کرنے کے بھی چند طریقے ہیں۔ سیرنج اور سوئی کے ذریعہ انجکشن قدیم اور روایتی طریقہ ہے۔ انسولین دینے کے لیے مخصوص سیرنج اور سوئی ملتی ہیں۔ خود سے انسولین کا انجکشن لینا آسان ہے۔ ڈاکٹر یا ذیابیطسی معلم مریضوں کو خود سے انجکشن لینا سکھادیتے ہیں۔
انسولین پین (Insulin pen) سے انسولین کا انجکشن لینا نسبتاً آسان ہے۔ مختلف اقسام کے انسولین پین ملتے ہیں۔ انسولین پین فونٹین پین کی طرح ہوتے ہیں جن میں سیاہی کی جگہ انسولین اور قلم کی نوک کے مقام پر سوئی ہوتی ہے۔ استعمال کا طریقہ اور دوسری تفصیلات انسولین پین کے ساتھ فراہم کی جاتی ہیں۔ جسم میں انسولین داخل کرنے کے لیے انسولین پمپ (Insulin Pump) بھی ملتے ہیں لیکن ان کا استعمال عام نہیں ہے۔
انسولین کی قسم اور خوراک کے لحاظ سے یومیہ انسولین کے انجکشن کی تعداد اور وقفہ مقرر ہوتا ہے۔ انسولین کے انجکشن کو دن میں ایک، دو یا متعدد مرتبہ لیا جاتا ہے۔
علاج کی مانیٹرنگ: ذیابیطس کے علاج کی کامیابی کا اندازہ کرنے کے لیے کوئی شکایت یا علامت نہیں ہے۔ خون گلوکوز میں کمی
اور علاج کی افادیت کا اندازہ کرنے کے لیے بھی ذیابیطس کی تشخیص کی طرح خون گلوکوز کا معائنہ کیا جاتا ہے۔ماضی کی بہ نسبت آج خون گلوکوز معلوم کرنا آسان ہے۔ گلوکوز پیما (Blood Glucose Meter) نامی ایک چھوٹے آلہ کی مدد سے ایک خطرہ خون سے خون گلوکوز معلوم کرلی جاتی ہے۔ یہ آلہ بازار میں دستیاب ہے اور خود مریض اپنی خون گلوکوز معلوم کرسکتا ہے۔ علاج کے شروع میں دن میں دو تین مرتبہ معائنہ کیاجاتا ہے۔ ایک مرتبہ خون گلوکوز قابو میں آجائے تو خون گلوکوز معائنہ دوچار دن یا ہفتے میں ایک مرتبہ کیاجاسکتا ہے۔
خون میں گلائیکوسیلیٹیڈ ہیموگلوبن معلوم کرکے بھی ذیابیطس کے علاج کی مانیٹرنگ کی جاتی ہے۔ اس معائنہ سے پچھلے ایک سے تین مہینوں کے دوران خون گلوکوز پر کنٹرول کا اندازہ ہوتا ہے۔ نارمل گلائیکوسیلیٹیڈ ہیموگلوبن سے یہ نتیجہ بھی اخذ ہوتا ہے کہ ذیابیطسی مریض میں غذا، جسمانی حرکت یا ریاضت اور دوا میں توازن برقرار ہے۔
٭ ٭ ٭
No comments:
Post a Comment